دیوبندی انگریز سرکار کے وفادار

Sunday, April 10, 2011


آئیے اب ذرا آپ ہی حضرات کی کتب سے تاریخی حالات پڑھئیے۔

ایک دیوبندی فاضل نے "مولانا محمد احسن نانوتوی" کے نام سے موصوف کی سوانح حیات لکھی جسے مکتبہ عثمانیہ کراچی پاکستان نے شائع کیا ہے اپنی کتاب میں مصنف نے اخبار انجمن پنجاب لاہور مجریہ 19 فروری 1875 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 13 جنوری 1875 بروز ایک شنبہ لیفٹینٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے مدرسہ دیوبند کا معائنہ کیا معائنہ کی جو عبارت موصوف نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس کی یہ چند سطریں خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں۔

"جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے۔ جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاونِ سرکار ہے۔"
(مولانا محمد احسن نانوتوی، ص 217)

Name:  post-3206-12768346837138.jpg

Views: 92

Size:  81.1 KB

خود انگریز کی اس شھادت کے بعد کہ یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممدر معاون سرکار ہے، اب افسانے کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ مدرسہ دیوبند انگریزی سامراج کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کا بہت بڑا اڈا تھا۔

(مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنز تھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کو شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔
(حاشیہ سوانح قاسمی، ج 2، ص 247)

یہ گواہی بھی آپ کے گھر سے ہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرات کن کے ٹکڑوں پر پلا کرتے تھے۔ کوئی بعید نہیں کہ اب دیوبندی حضرات یہ تاویل بھی کریں کہ انگریزی حکومت کا خاتمہ ہم نے ان وظیفے اور عطیات لے لے کر انہیں کنگال کر کے کیا۔

اپنے قطب القطاب رشید گنگوہی پر لکھی "تذکرۃ الرشید" میں بھی دیوبندی علما نے کافی انکشافات کئیے ہیں۔ پہلے رشید گنگوہی پر بغاوت کے الزام کی بابت لکھتے ہیں کہ؛

"شروع 1276ھ، 1858 وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی۔"

یہاں "اپنی سرکار" سے کس بات کی غمازی ہوتی ہے یہ قارئین پڑھ ہی رہیں ہونگے۔ مزید آگے لکھتے ہیں کہ؛

"جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن وعافیت کا زمانہ قدر کی نظروں سے نہ دیکھا اور اپنی رحمدل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا۔"
(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

00000075-jpg

غاصب انگریز کو "رحمدل" اور تحریکِ آزادی کو "بغاوت" کہنے والوں کی اس معاملے میں کیا سوچ تھی یہ خود انہی کی زبانی واضح ہے۔ یہ آپ ہی کے اکابرین ہیں۔ اس کے بعد بھی جہاد جہاد کا شور مچانا اور خود کو تحریکِ پاکستان کے مخلص طبقے کی صورت میں پیش کرنا بدیانتی نہیں تو اور کیا ہے۔

اب آئیے آپ کو شاملی کی جنگ کا بھی نقشہ دکھاؤں کے جسے ایک بہت بڑا معرکہ قرار دے کر دیوبندی ایک زمانے سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے آئے ہیں۔ حتیٰ کہ اس فورم پر بھی "کیا 1857 کی جدوجہد پہلی جنگ آزادی تھی؟" کے نام سے بھی ایک ٹاپک موجود ہے جہاں اس شاملی کی جھڑپ کا تذکرہ بلکل ہی مختلف رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلے آپ کی طرف سے عوام کو دئیے جانے والے دھوکے کی تفصیل پیش ہے اس کے بعد اس واقعہ کی اصلیت آپ ہی کتاب سے پیش کروں گا۔ فيصل احمد ندوي بھٹكلي رشيد احمد گنگوهي اور قاسم نانوتوی كو جنگ آزادی كا سورما ثابت كرنے كے ليے کہتے ہیں کہ:

"مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوي كو سپہ سالار افواج قرار ديا گيا۔ شاملي اس علاقے كا مركزي ميدان تھا وهاں تحصيل بھي تھي اور كچھ انگريز فوجي بھي رهتے تھے۔ قرار پايا كہ شاملي كي طرف كوچ كر كے اس پر حملہ كيا جائے، چناں چہ چڑھائي ہوئي ۔ شاملي كے ميدان ميں جنگ لڑي گئي ، انگريزي فوج سے مجاہدين كا سخت مقابلہ ہوا، انجام كار مجاہدين كو غلبہ ہوا۔ مقامي حكام نے رپورٹوں ميں ان انقلابي مجاہدين كے جوش و خروش سے بھر پور دليرانه حملوں كا حيرت سے تذكره كيا ہے۔ انگريز فوج نے پسپا ہو كر تحصيل ميں پناه لي ، مجاہدين نے تين دن محاصره كے بعد تحصيل كا دروازه توڑ ليا ، اور اندر داخل ہوئے۔ دست بدست جنگ ہونے لگي، اسي اثنا ميں حضرت حافظ ضامن شہيد ہوئے"

﴿ماہ نامہ نيا دور انقلاب1857ء نمبر،ص:92 93﴾

اب آئیے تذکرۃ الرشید سے اس واقعے کی اصلیت پڑھئیے۔

"اتنی بات یقینی ہے کہ اس گھبراہٹ کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کانپتے تھے حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) اور دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ انجام دیتے اور جس شغل میں اس سے قبل مصروف تھے بدستور ان کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ کبھی ذرہ بھر اضطراب نہیں پیدا ہوا اور کسی وقت چہ برابر تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ آپکو اور آپ کے مختصر مجمع کو جب کسی ضرورت کے لئے شاملی کرانہ یا مظفرنگر جانیکی ضرورت ہوئی، غایت درجہ سکون ووقار کے ساتھ گئے اور طمانیت قلبی کے ساتھ واپس ہوئے۔ ان ایام میں آپکو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے۔ حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیقِ جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰحضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا۔ اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سرکار پر جاںثاری کے لئے تیار ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت و جوا مردی کے جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلواریں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لئے ہیں۔ چناچہ آپ پر فیریں ہوئی اور حضرت ضامن صاحب زیرِ ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے"
(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 74-75)

00000076-jpg
00000077-gif

یہ ہے دیوبندیوں کا الٹا جہاد جو انہوں نے اپنی "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا۔ خود عاشق الہٰی میرٹھی مصنف تذکرۃالرشید کو اعتراف ہے کہ جس زمانے میں عوام انگریز کے مظالم کے خوف سے گھروں میں چھپی رہتی تھی اس زمانے میں بھی یہ دیوبندی حضرات بڑے اطمینان سے اپنے معمولات کی تکمیل کرتے تھے۔ اور کیوں نہ کرتے کہ انگریز جن کی سرکار ہو، جن کے مدارس "معاونِ سرکار" ہوں انہیں کیا خوف۔ اس کیفیت کا کھل کر اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

"ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتہً بےگناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے انکو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹہرا رکھا تھا اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اسلئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیرخواہ تھے، تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔"
(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 81)

00000081-gif

اتنے واشگاف الفاظ میں انگریز کو اپنی "مہربان سرکار" ماننے والے آج علما اہلسنت پر انگلیاں اٹھائیں تو ہم سوائے آپ کے بےشرمی پر افسوس کرنے کے اور کیا کرسکتے ہیں!

 
دیوبندی حضرات ریشمی رومال تحریک کا سار سہرا بھی اپنے سر ہی لیتے ہیں۔ اس کی حقیقت خود آپ ہی کے محمد شاہ امروٹی کے دمِ مرگ کئے گئے انکشافات میں پڑھ لیں۔ میرے خیال میں اس پر کسی تبصرے کی بھی ضرورت نہیں۔

post-4540-1282114167816-jpg
post-4540-12821141520388-jpg
آخر میں بلاتبصرہ مدرسہ دیوبند کا انگریزوں سے پوری طرح وفاداری کا عہدنامہ پیش کرتا ہوں۔۔۔۔
al_huda1-jpg
al_huda2-jpg

Ashraf Ali Thanvi Deobandi Per Saudi Ulema Ka Fatwa


Fatwa sold by Deobandi Ulema for few Pennies

Deobandi Ulema caught by a hidden camera of Star News channel, it was telecasted live on air in Star news channel. Star news correspondents are specialized set of people who are master in this act, the have done this many time in the past to open up the corrupt politician. May ALLAH protect us from these kinds of DeoGandi Fitna. Ameen

دیوبندی دھشت گرد

Friday, April 8, 2011


ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور دربار پر خود کش حملےکلِک  کی ناکام



کوشش کرنے والے پندرہ سالہ عمر عرف فدائی نے دوران 


تفتیش بتایا ہے کہ ان کے والد زبیر کراچی میں ایک فیکٹری 

میں کام کرتے تھے اور عمر کے بقول ان کے والد فیکٹری 

میں بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

تفتیش کے دوران عمر نے بتایا کہ وہ افغان سرحد کے قریب 


طورخم کا رہائشی ہے اور جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا 
میں نور پبلک سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ 

’اسی سکول میں طالبان نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھے 

مرکز لے گئے اور وہاں میرا نام فدائی رکھا۔ امیر (جس کا نام 

عمر کومعلوم نہیں) مجھے ٹریننگ دیتا تھا۔‘

  خود کش حملہ آور کا مکالمہ

گرفتاری کے بعد ہسپتال میں اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں 

نے عمر سے سوال کیا کہ اس نے اس قدر تکلیف کیوں اُٹھائی؟ 

اس کا ایک بازو کٹ گیا ہے اور اس کا جسم بھی زخموں سے 
چُور ہے۔ 

عمر کا جواب تھا ’یہ تکلیف اس نے بہشت کے لیے  اُٹھائی ہے۔‘

خود کُش بمبار عمر کے مطابق امیر نے انہیں بتایا تھا کہ 


’دربار پر جانے والے لوگ امریکیوں سے بھی بڑے کافر ہیں‘۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر پشتو لہجے میں ٹوٹی 


پھوٹی اردو بول رہا تھا جبکہ اس کے چہرے پر خوف کی کوئی علامت نہیں تھی۔

تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عمر کو ظفر نامی ایک 


شخص سخی سرور کے مزار پر چھوڑ کر گیا تھا۔ عمر کے 

گھر میں والدہ اور دو بہنیں ہیں جنھیں وہ بتا کر بھی نہیں آٓیا 

تھا۔

نشتر ہسپتال میں اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا کہ 

عمر نے ہوش میں آٓنے کے بعد کہا کہ اس کو تو ’جنت میں 

ہونا چاہیے تھا وہ ہسپتال میں کیوں ہے‘ اس نے یہ بھی کہا کہ 

’تم لوگ میری زندگی بچا رہے ہو۔ جن لوگوں نے مجھے بھیجا 

ہے وہ مجھے ہرگز زندہ نہیں چھوڑیں گے‘۔ ڈاکٹروں کے 

مطابق اس کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔

آٓرپی او ڈیرہ غازی خان احمد مبارک احمد نے میڈیا کو بتایا کہ 

سبیل کے پاس خودکش حملہ کرنے والے کا نام اسماعیل عرف 

فدائی تھا۔ ’وہ ہر اس بندے کو فدائی کہتے ہیں جو ٹریننگ لے 

لیتا ہے۔ عمر نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اسماعیل کا اصل 
نام 


عبداللہ ولد نوراللہ تھا۔‘





آر پی او کے مطابق عمر نے بتایا کہ طورخم میں پانچ ٹریننگ 

کیمپ بنے ہوئے ہیں۔

’ٹریننگ کیمپ کے متعلق مزید تو وہ کوئی بات نہیں بتاسکا 

سوائے اس کے کہ جو ٹرینر تھا اس کا 

نام سنگین خان تھا۔ سنگین خان بھی تحریکِ طالبان کے لیڈران 

سے ہدایات لے کے یہ ٹریننگ کرتا ہے۔

Reference : BBC URDU     http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/04/110406_suicide_bomber_profile_rh.shtml