تحذیرالناس کی گستاخیاں

Friday, March 25, 2011

تحذیر الناس : مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند

مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند ص 2۔3۔13۔24۔کا عکس

خط کشیدہ عبارت صفحہ 3 کی ابتداء میں بتایا عوام کے خیال میں خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہیں ، مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ زمانہ تقدم یا تاخرّ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔
اس بات کو بنیاد قرار دیکر آیۃ مبارکہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم والکن رسول اللہ وخاتم النبیین ۔ پر بحث کرتے ہوئے لکھا کہ اس آیت کو تاخر زمانی کے معنی میں لیا جائے تو یہ آیت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مدح نہیں ہوسکتی ، چونکہ یہ آیت مقام مدح*میں واقع ہے اس لیے خاتم بمعنی آخری نبی نہیں ہوسکتا ۔
پھر اس میں مزید اضافہ کیا : اگر خاتم النبیین کا معنی آخری نبی مان لیا جائے تو اس سے تین خرابیاں لازم آئیں گی ۔
اول یہ کہ اللہ تعالٰی پر زیادہ گوئی کا وہم ہوگا ( نعوذباللہ ) کیونکہ جب خاتم النبیین کا معنی آخری نبی مان لیا گیا تو یہ آیت کریمہ مدح نہ ہوگی اور لفظ خاتم اوصاف نبوت میں سے نہ ہوگا بلکہ قدو قامت اور شکل و رنگ کی طرح ایسا وصف ہوگا جس کو نبوت اور اس کے فضائل میں دخل نہ ہوگا ۔
دوسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ اس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نقصان قدر کا احتمال ہوگا کیونکہ خاتم النبیین کا معنی اگر آخری نبی مان لیا گیا تو اب یہ وصف مدح اور کمال نہ رہے گا ، جبکہ ایسے اوصاف جن میں مدح و کمال نہ ہو ایسے ویسے لوگوں کے لیے بیان کیے جاتے ہیں ۔
تیسری خرابی کو یوں بیان کیا اگر اس آیت قرآنی میں اس دین کے آخری ہونے کو بیان کرنا مان لیا جائے جو اگرچہ قابل لحاظ ہوسکتا ہے مگر اس صورت میں قرآنی آیت کے دونوں جملوں ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین میں بے ربطی پیدا ہوجائیگی جوکہ اللہ تعالٰی کے معجز کلام میں متصور نہیں ہوسکتی ۔
ان تین مفروضہ دلائل سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی (تاخرزمانی )*درست نہیں ہے ، لکھا کہ یہاں خاتم النبیین کی خاتمت کی بنیاد اور بات پر ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں خاتم کا معنیٰ بالذات (بلاواسطہ) نبی کے ہیں ، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالذات نبی ہیں اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بالعرض (بالواسطہ) نبی ہیں ،
پھر صفحہ 13 اور 24 کی عبارت میں اس بات کی تصریح کردی ہے : آپ کے زمانہ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے تب بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔
بعض لوگ یہاں پر لفظ فرض کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات فرض کی گئی ہے جبکہ فرض تو محال کو بھی کیا جاسکتا ہے ، حالانکہ وہ چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ، کیونکہ فرض اگرچہ محال کو بھی کیا جاسکتا ہے مگر محال کے فرض کرنے پر فساد اور بطلان لازم آیا کرتا ہے ، محال کے فرض کو امکان یا صحت لازم نہیں آتی جبکہ یہاں بعد میں پیدا ہونے والے نبی کو فرض کرنے پر کہا گیا ہے کہ کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ خاتمیت میں فرق نہیں آتا ۔
نیز یہاں فرض تقدیری نہیں ، بلکہ فرض تجویزی ہے اس لیے انہوں نے فرض کے ساتھ لفظ تجویز بھی استعمال کیا ہے ، غرضیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا عوام کا خیال ( جبکہ یہاں*معنی قطعی ہے اور اسی پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے )
پھر واضح طور پر تاخر زمانی کے لحاظ سے آخری نبی کے معنی کو تین طرح سے نادرست ثابت کرنا اور ساتھ ہی یہ تصریح کرنا کہ خاتم النبیین کا معنی بالذات نبی کے ہیں اور اس پر صراحۃ بار بار یہ کہہ دینا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا آپ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔
یہی وہ عبارت ہیں جن کی بنیاد پر قدیانی مرزا نے اپنی نبوت کی عمارت قائم کرلی ۔





1 comments:

EXPOSED ZONE said...

نہ تم صدمے ہميں ديتے نہ ہم فريا د يوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ يوں رسوائياں ہوتيں

Post a Comment